چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا
چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا
جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا
فلک نے آہ تری رہ میں ہم کو پیدا کر
برنگ سبزۂ نورستہ پائمال کیا
رہی تھی دم کی کشاکش گلے میں کچھ باقی
سو اس کی تیغ نے جھگڑا ہی انفصال کیا
مری اب آنکھیں نہیں کھلتیں ضعف سے ہمدم
نہ کہہ کہ نیند میں ہے تو یہ کیا خیال کیا
بہار رفتہ پھر آئی ترے تماشے کو
چمن کو یمن قدم نے ترے نہال کیا
جواب نامہ سیاہی کا اپنی ہے وہ زلف
کسو نے حشر کو ہم سے اگر سوال کیا
لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |