چمن کا ذکر کیا اب تو خدا کو یاد کرتے ہیں

چمن کا ذکر کیا اب تو خدا کو یاد کرتے ہیں
by ثاقب لکھنوی

چمن کا ذکر کیا اب تو خدا کو یاد کرتے ہیں
خوشی صیاد کو ہوتی ہے جب فریاد کرتے ہیں

نہ شرماؤ اگر ہم شکوۂ بیداد کرتے ہیں
محبت ہے تمہاری عادتوں کو یاد کرتے ہیں

ہماری داستان غم رلاتی ہے زمانے کو
وہ ہم ہیں جو زبان غیر سے فریاد کرتے ہیں

خدا آباد رکھے ہم صفیران گلستاں کو
جو کوئی پھول کھلتا ہے تو ہم کو یاد کرتے ہیں

اسیران قفس خود بھی بہت کچھ کہہ گزرتے ہیں
چمن کے تذکرے آپس میں جب صیاد کرتے ہیں

نہیں معلوم میں کس حال میں ہوں باغ عالم میں
قفس والے بھی مجھ کو دیکھ کر فریاد کرتے ہیں

خود ان کا حسن میری داد خواہی ان سے کرتا ہے
وہ آئینہ لئے ہیں اور مجھ کو یاد کرتے ہیں

عدو صیاد گلچیں کیوں ہو میرے نشیمن کے
یہ تنکے بھی ہیں اس قابل جنہیں برباد کرتے ہیں

لحد پر چلنے والے تھم کہ ہم کچھ کہہ نہیں سکتے
زمیں رکھتی ہے منہ پر ہاتھ جب فریاد کرتے ہیں

وہ خوباں جہاں اشکوں سے جن کا حسن سینچا تھا
وہی بعد فنا مٹی مری برباد کرتے ہیں

سر گور غریباں کچھ نہ پوچھو حال دل ثاقبؔ
زمانہ جن کو بھولا ہے ہم ان کو یاد کرتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse