چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا
چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا
دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر کر گیا
دہر میں میں خاک بسر ہی رہا
عمر کو اس طور بسر کر گیا
دل نہیں ہے منزل سینہ میں اب
یاں سے وہ بیچارہ سفر کر گیا
حیف جو وہ نسخۂ دل کے اپر
سرسری سی ایک نظر کر گیا
کس کو مرے حال سے تھی آگہی
نالۂ شب سب کو خبر کر گیا
گو نہ چلا تا مژۂ تیر نگہ
اپنے جگر سے تو گزر کر گیا
مجلس آفاق میں پروانہ ساں
میرؔ بھی شام اپنی سحر کر گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |