چٹکیاں لی ہی کہ اٹھ بیٹھ جو مر جائے کوئی

چٹکیاں لی ہی کہ اٹھ بیٹھ جو مر جائے کوئی
by عبدالرحمان احسان دہلوی

چٹکیاں لی ہی کہ اٹھ بیٹھ جو مر جائے کوئی
اے ستم گر ترے ہاتھوں سے کدھر جائے کوئی

کیوں کی گزرے گی نہ گزرو گے جو تم یار ادھر
پس یہ مرضی ہے کہ بس جیسے گزر جائے کوئی

مرے مرنے سے ترا شہرہ ہوا یا قسمت
کہ بگڑ جائے کوئی اور سنور جائے کوئی

ایک دم کا بھی بھروسا نہیں مانند حیات
بحر ہستی میں حباب آ کے ابھر جائے کوئی

شمع ساں سر نہ کٹے اس کا یہ امکان نہیں
بزم خوباں میں جو با دیدۂ تر جائے کوئی

دل مرا تم نے چرایا مجھے الٹی ہے یہ فکر
نہ خبر پائے کوئی تا نہ بپھر جائے کوئی

آپ کے عہد میں یہ رسم ہے دیکھی ہم نے
کہ گنہ گار کوئی اور ہو ڈر جائے کوئی

گھر سے نکلو کہ ہمیں گھر کی نہ کچھ یاد رہے
گھر میں بیٹھے ہوئے کہتی ہو نہ گھر جائے کوئی

یوں تو سمجھے سنے آتی نہیں احساںؔ کو سمجھ
کیا تماشا ہو کہ دل لے کے مکر جائے کوئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse