چکھی نہ جس نے کبھی لذت سنان نگاہ
چکھی نہ جس نے کبھی لذت سنان نگاہ
مزہ دے پھر اسے کیا تیغ خوں چکان نگاہ
جس انجمن میں کہ پڑتا نہ تھا گمان نگاہ
پڑا ہے ٹوٹ دم رقص آسمان نگاہ
بلا سے اس سے ہی روز سیہ کا حال کہوں
کہ میل سرمہ ہے اس کے مزاج دان نگاہ
دھنک سے سرمے کی چلہ ہے تا بہ گوشۂ چشم
کوئی ہے صید جو پھر زہ ہوئی کمان نگاہ
بری ہے واجب و ممکن کی قید سے وہ حسن
نہ درمیانۂ مردم نہ درمیان نگاہ
ہوا تھا مستی کی مجلس میں شب گزر اپنا
کیا نظارۂ محویت جہان نگاہ
وہ آسماں کی طرف دیکھے گر اٹھا کر آنکھ
گرے زمین پہ عیسیٰ بھی کھا سنان نگاہ
نہ تاب نور تجلی کی لا سکا موسیٰ
فروغ حسن ہوا باعث زیان نگاہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |