چھپ کے گھر غیر کے جایا نہ کرو

چھپ کے گھر غیر کے جایا نہ کرو
by رند لکھنوی
316639چھپ کے گھر غیر کے جایا نہ کرورند لکھنوی

چھپ کے گھر غیر کے جایا نہ کرو
ربط ہر اک سے بڑھایا نہ کرو

اے بتو بال بنایا نہ کرو
سانپ ہاتھوں پہ کھلایا نہ کرو

سبزۂ خط کو دکھایا نہ کرو
طوطے ہاتھوں کے اڑایا نہ کرو

رند غم ہجر کا کھایا نہ کرو
جان کو اپنی کھپایا نہ کرو

تذکرہ غیر کا لایا نہ کرو
جلے کو اور جلایا نہ کرو

منہ کو غنچے کے چڑایا نہ کرو
گل کو کھلی میں اڑایا نہ کرو

مدعا جو ہو زباں سے کہو صاف
حرف مطلب کو چبایا نہ کرو

اپنا سمجھو مرا دل شوق سے لو
میری جاں اپنا پرایا نہ کرو

مجھ کو بھی یاد ہیں فقرے صاحب
جوڑ بندے پہ بنایا نہ کرو

خود میں دم باز ہوں ہے دھیان کدھر
مجھ کو فقروں میں اڑایا نہ کرو

ہوش میں آؤ پری زادو تم
مجھ کو دیوانہ بنایا نہ کرو

ہم لہو تھوک کے مر جائیں گے
لالی ہونٹوں پہ جمایا نہ کرو

لوگ سودائی ہوئے جاتے ہیں
دھڑی مسی کی لگایا نہ کرو

ہو نہ انگشت نما مثل ہلال
جان نوچندی میں جایا نہ کرو

اے بتو اپنے خدا کو مانو
کعبۂ دل کو تو ڈھایا نہ کرو

میں تو حاضر ہوں وفاداری میں
تم کرو مجھ سے وفا یا نہ کرو

دھوکے دریا میں بھبوکا سے ہاتھ
آگ پانی میں لگایا نہ کرو

مجھ سے خلوت کی ملاقات رہے
روز جلوت میں بلایا نہ کرو

واسطے بندے کے بد نامی ہے
جان صحبت میں بٹھایا نہ کرو

دیکھنے والوں کی جانب دیکھو
اس طرح آنکھ چرایا نہ کرو

شرم بے جا ہے برا کرتے ہو
اچھی صورت کو چھپایا نہ کرو

جاؤ دریا پہ نہ تم غیر کے ساتھ
ایسے مینڈھے تو لڑایا نہ کرو

دانت پیسا نہ کرو عاشق پر
جان یوں ہونٹھ چبایا نہ کرو

چار دن وصل میں ہنس لینے دو
آٹھ آٹھ آنسو رلایا نہ کرو

لوگ بد وضع کہیں گے تم کو
میلے ٹھیلے کبھی جایا نہ کرو

جان کس کام کا یہ بھولا پن
دم میں ہر ایک کے آیا نہ کرو

عاشقوں کی بری گت ہوتی ہے
تم ستاری تو بجایا نہ کرو

حضرت دل یہی فرماتے ہیں
عشق معشوق چھپایا نہ کرو

خوش نہیں آتا اگر میرا کلام
تو غزل بھی مری گایا نہ کرو

تھامو اب قبضۂ شمشیر اے رندؔ
کوفت پر کوفت اٹھایا نہ کرو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.