چین دنیا میں زمیں سے تا فلک دم بھر نہیں
چین دنیا میں زمیں سے تا فلک دم بھر نہیں
داغ ہیں یہ گل نہیں ناسور ہیں اختر نہیں
سر رہے یا جائے کچھ ہم میکشوں کو ڈر نہیں
کون سا مینائے مے اے محتسب بے سر نہیں
وہ بت شیریں ادا کرتا ہے مجھ کو سنگسار
یہ شکر پارے برستے ہیں جنوں پتھر نہیں
ہو رہا ہے ایک عالم تیرے ابرو پر نثار
کون گردن ہے جہاں میں جو تہ خنجر نہیں
دم نکلنے پر جو آتا ہے نہیں رکتا ہے پھر
دیکھ لو قصر حباب اے اہل غفلت در نہیں
آدمی تو کیا وہ کہتا ہے نشان پا سے بھی
کیوں پڑا ہے میرے کوچے میں ترا کیا گھر نہیں
اے تصور کیوں بتوں کو جمع کرتا ہے یہاں
دل مرا کعبہ ہے کچھ بت خانۂ آزر نہیں
شکوہ جو بے نوکری کا کرتے ہیں نادان ہیں
آپ آقا ہے کسی کا جو کوئی نوکر نہیں
ہے خرابات جہاں میں بھی وہ ساقی سے نفور
جو کہ اے ناسخؔ غلام ساقیٔ کوثر نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |