ڈھب ہیں تیرے سے باغ میں گل کے
ڈھب ہیں تیرے سے باغ میں گل کے
بو گئی کچھ دماغ میں گل کے
جائے روغن دیا کرے ہے عشق
خون بلبل چراغ میں گل کے
دل تسلی نہیں صبا ورنہ
جلوے سب ہیں گے داغ میں گل کے
اس حدیقے کے عیش پر مت جا
مے نہیں ہے ایاغ میں گل کے
سیر کر میرؔ اس چمن کی شتاب
ہے خزاں بھی سراغ میں گل کے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |