کاش اٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ

کاش اٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ
by میر تقی میر
293951کاش اٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچمیر تقی میر

کاش اٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ
ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ

جی سدا ان ابروؤں ہی میں رہا
کی بسر ہم عمر تلواروں کے بیچ

چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ

ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں
شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ

جب سے لے نکلا ہے تو یہ جنس حسن
پڑ گئی ہے دھوم بازاروں کے بیچ

عاشقی و بے کسی و رفتگی
جی رہا کب ایسے آزاروں کے بیچ

جو سرشک اس ماہ بن جھمکے ہے شب
وہ چمک کاہے کو ہے تاروں کے بیچ

اس کے آتش ناک رخساروں بغیر
لوٹیے یوں کب تک انگاروں کے بیچ

بیٹھنا غیروں میں کب ہے ننگ یار
پھول گل ہوتے ہی ہیں خاروں کے بیچ

یارو مت اس کا فریب مہر کھاؤ
میرؔ بھی تھے اس کے ہی یاروں کے بیچ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.