کام دیوانوں کو شہروں سے نہ بازاروں سے

کام دیوانوں کو شہروں سے نہ بازاروں سے
by یاس یگانہ چنگیزی
300351کام دیوانوں کو شہروں سے نہ بازاروں سےیاس یگانہ چنگیزی

کام دیوانوں کو شہروں سے نہ بازاروں سے
مست ہیں عالم ایجاد کے نظاروں سے

زلفیں بل کھاتی ہیں یا جھومتی ہے کالی گھٹا
بارش نور ہے ہر سو ترے رخساروں سے

واں نقاب اٹھی یہاں چاندنی نے کھیت کیا
کٹ گئی ظلمت شب چاند سے رخساروں سے

دیکھتا رہ گیا آئینہ کسی کی صورت
زلفیں اٹکھیلیاں کرتی رہیں رخساروں سے

دیکھیں کس طرح بسر ہوتے ہیں ایام جنوں
یاں تو ہے سامنا ہر دم انہیں غم خواروں سے

ہاتھ الجھا ہے گریباں میں کھڑے دیکھتے ہیں
اور امید کوئی کیا کرے غم خواروں سے

کشش دشت بلا حب وطن دامن گیر
آج گھر چھٹتا ہے پہلے پہل آواروں سے

مرتے دم تک تری تلوار کا دم بھرتے رہے
حق ادا ہو نہ سکا پھر بھی وفاداروں سے

بے دھڑک پچھلے پہر نالہ و شیون نہ کریں
کہہ دے اتنا تو کوئی تازہ گرفتاروں سے

موسم گل نہیں پیغام اجل تھا صیاد
دیکھ خالی ہے قفس آج گرفتاروں سے

کیا برا حال ہے انگڑائیاں لیتے لیتے
ساقیا ناز اب اچھا نہیں مے خواروں سے

کانپتے ہاتھوں سے ساغر کو بچایا تو بہت
کیا کہیں خود ہی نہ سنبھلا گیا مے خواروں سے

سر کو ٹکرا کے گیا ہے کوئی صحرا کی طرف
خون ثابت ہے ابھی شہر کی دیواروں سے

ایڑیاں وادئ غربت میں رگڑتے ہی رہے
دور کھنچتی گئی منزل وطن آواروں سے

کان میں پچھلے پہر آئی اک آواز حزیں
اب تو غم خوار بھی دق ہیں ترے بیماروں سے

جھلملانے لگا جب یاسؔ چراغ سحری
پھر تو ٹھہرا نہ گیا ہجر کے بیماروں سے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.