کبھی تو بیٹھوں ہوں جا اور کبھی اٹھ آتا ہوں
کبھی تو بیٹھوں ہوں جا اور کبھی اٹھ آتا ہوں
منوں ہوں آپ ہی پھر آپھی روٹھ جاتا ہوں
معاملہ تو ذرا دیکھیو تو چاہت کا
مجھے ستاوے ہے وہ اس کو میں ستاتا ہوں
رکا ہوا وہ مجھے دیکھ کر جو بولے ہے
تو بولتا نہیں میں اس سے سر ہلاتا ہوں
پر اتنے میں جو میں سوچوں ہوں یہ نہ رک جاوے
زباں پہ اپنی بھی اک آدھ حرف لاتا ہوں
کہے ہے دل یہ کہ ایسے سے دوستی ہے عبث
برائیوں کا جو اس کی خیال لاتا ہوں
یہ کہہ کے بیٹھ رہوں ہوں جو اپنے گھر میں ذرا
تو دل کہے ہے یہ گھبرا کے میں تو جاتا ہوں
جب اپنا حال یہ دیکھوں ہوں میں تو ہونا چار
جھپٹ کے پیچھے سے دل کے قدم اٹھاتا ہوں
بتا تو مصحفیؔ کیا تجھ کو ہو گیا کم بخت
کچھ ان دنوں ترا چہرہ تغیر پاتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |