کبھی دامان دل پر داغ مایوسی نہیں آیا
کبھی دامان دل پر داغ مایوسی نہیں آیا
ادھر وعدہ کیا اس نے ادھر دل کو یقیں آیا
محبت آشنا دل مذہب و ملت کو کیا جانے
ہوئی روشن جہاں بھی شمع پروانہ نہیں آیا
دوعالم سے گزر کے بھی دل عاشق ہے آوارہ
ابھی تک یہ مسافر اپنی منزل پر نہیں آیا
مری جانب سے ان کے دل میں کس شکوے پہ کینہ ہے
وہ شکوہ جو زباں پر کیا ابھی دل میں نہیں آیا
حیات بے خودی کچھ ایسی نا محسوس تھی ناطقؔ
اجل آئی تو مجھ کو اپنی ہستی کا یقیں آیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |