کبھی دیکھیں جو روئے یار درخت

کبھی دیکھیں جو روئے یار درخت
by امداد علی بحر
302777کبھی دیکھیں جو روئے یار درختامداد علی بحر

کبھی دیکھیں جو روئے یار درخت
اپنے پھولوں کو سمجھیں خار درخت

چار سو ہے انہیں کا لکھ پیڑا
یہ عناصر کے ہیں جو چار درخت

میرے گلزار میں ہیں شعلے پھول
میرے ہر آہ شعلہ بار درخت

سو فساد ایک عشق میں اٹھے
بویا اک تخم اگے ہزار درخت

جب چلا باغ سے وہ سرو رواں
ہو گئے طائروں کو دار درخت

جس کو طوبیٰ زمانہ کہتا ہے
تیرے گھر میں ہے سایہ دار درخت

تو خزاں میں جو سیر کو نکلے
مرے ہو جائیں بے بہار درخت

پھل نہ لایا نہال عشق اپنا
پھلے پھولے ہزار بار درخت

بحرؔ کیا نشہ میں خوش آتے ہیں
نہر گلشن کے دار پار درخت


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.