کب تلک پیوے گا تو تر دامنوں سے مل کے مل

کب تلک پیوے گا تو تر دامنوں سے مل کے مل
by حسرتؔ عظیم آبادی

کب تلک پیوے گا تو تر دامنوں سے مل کے مل
ایک دم اے غنچہ لب ہم سے کبھی تو کھل کے کھل

بے سرو برگوں کو کیا نسبت ہے سیر باغ سے
داغ دل ہیں ہم تہی دستان پا در گل کے گل

اس کی جنگ بے سبب کا ہے تغافل ہی علاج
آپ ڈھیلا ہو کے آوے گا ادھر ڈھل ڈھل کے ڈھل

زیر ابرو اس طرح مژگاں نہیں رہتی مدام
سر پہ میرے جوں رہے ہے تیغ اس قاتل کی تل

ربط کچھ بزم مشائخ سے نہیں رندوں کے تئیں
کب لئے یہ مست ساغر کے سوا قلقل کی قل

ہو سکے تو بخیہ و مرہم کا یارو وقت ہے
جاں نہ جاوے اس تن مجروح میں گھائل کے گھل

با قد خم گشتہ ہوں رونے سے نت کے میں خراب
موج دریا توڑتے ہیں جس طرح پل پل کے پل

چلے کی مانند کھینچوں جب تلک بر میں نہ تنگ
کب مٹے ہے اس بت ہرجائی چنچل کی چل

دور میں اس زلف کے ہے بس کہ دیوانوں کی دھوم
سنتا ہوں چاروں طرف سے میں صدائے غل کے غل

حسرتؔ اس کے دام میں پھنسنا مقدر تھا مرا
تھے مری نظروں میں تو پیچ و خم اس کاکل کے کل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse