کب تلک ہم کو نہ آوے گا نظر دیکھیں تو

کب تلک ہم کو نہ آوے گا نظر دیکھیں تو
by حسرتؔ عظیم آبادی

کب تلک ہم کو نہ آوے گا نظر دیکھیں تو
کیسے ترساتا ہے یہ دیدۂ تر دیکھیں تو

عشق میں اس کے کہ گزرے ہیں سر و جان سے ہم
اپنی کس طور سے ہوتی ہے گزر دیکھیں تو

کر کے وہ جور و ستم ہنس کے لگا یہ کہنے
آہ و افغاں کا تری ہم بھی اثر دیکھیں تو

صبر ہو سکتا ہے کب ہم سے ولے مصلحتاً
آزمائش دل بیتاب کی کر دیکھیں تو

ڈھب چڑھے ہو مرے تم آج ہی تو مدت بعد
جائیں گے آپ کہاں اور کدھر دیکھیں تو

کس دلیری سے کرے ہے تو فدا جان اس پر
دل جانباز ترا ہم بھی ہنر دیکھیں تو

کیا مجال اپنی جو کچھ کہہ سکیں ہم تجھ سے اور
تجھ کو بھر کر نظر اے شوخ پسر دیکھیں تو

ہو چلیں خیرہ تو اختر شمری سے آنکھیں
شب ہماری بھی کبھی ہوگی سحر دیکھیں تو

عشق کے صدمے اٹھانے نہیں آساں حسرتؔ
کر سکے کوئی ہمارا سا جگر دیکھیں تو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse