کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا
کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا
ایک دن یوں ہی جی سے جائیے گا
شکل تصویر بے خودی کب تک
کسو دن آپ میں بھی آئیے گا
سب سے مل چل کہ حادثے سے پھر
کہیں ڈھونڈا بھی تو نہ پائیے گا
نہ موئے ہم اسیری میں تو نسیم
کوئی دن اور باؤ کھائیے گا
کہیے گا اس سے قصۂ مجنوں
یعنی پردے میں غم سنایئے گا
اس کے پابوس کی توقع پر
اپنے تیں خاک میں ملایئے گا
اس کے پاؤں کو جا لگی ہے حنا
خوب سے ہاتھ اسے لگایئے گا
شرکت شیخ و برہمن سے میرؔ
کعبہ و دیر سے بھی جائیے گا
اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جدی مسجد
کسی ویرانے میں بنایئے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |