کب خوں میں بھرا دامن قاتل نہیں معلوم

کب خوں میں بھرا دامن قاتل نہیں معلوم
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کب خوں میں بھرا دامن قاتل نہیں معلوم
کس وقت یہ دل ہو گیا بسمل نہیں معلوم

اس قافلے میں جاتے ہیں محمل تو ہزاروں
پر جس میں کہ لیلیٰ ہے وہ محمل نہیں معلوم

درپیش ہے جوں اشک سفر ہم کو تری کا
دن رات چلے جاتے ہیں منزل نہیں معلوم

حیران ہیں ہم اس کے معمائے دہن میں
کیوں کر کھلے یہ عقدۂ مشکل نہیں معلوم

اے مصحفیؔ جل بھن کے ہوا خاک میں سارا
دکھلاوے گی اب کیا تپش دل نہیں معلوم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse