کرتی ہے مجھے قتل مرے یار کی رفتار
کرتی ہے مجھے قتل مرے یار کی رفتار
تلوار کی تلوار ہے رفتار کی رفتار
کج ایسی نہ تھی آگے مرے یار کی رفتار
سیکھا ہے مگر چرخ ستم گار کی رفتار
سر گرتے ہیں کٹ کٹ کے وہ رکھتا ہے جہاں پاؤں
سیکھی ہے مگر یار نے تلوار کی رفتار
گردش ہے تری نرگس بیمار کو دن رات
دیکھی نہیں ایسی کسی بیمار کی رفتار
ٹلتی نہیں زلفوں کے تصور کی طرح سے
ہے طرفہ جدائی کی شب تار کی رفتار
لغزش نہ ہو کیوں کر رہ دیں میں مجھے زاہد
یاد آ گئی اس کافر مے خوار کی رفتار
ظالم ترے کوچے سے قدم اٹھ نہیں سکتا
کیوں کر نہ چلوں سایۂ دیوار کی رفتار
کیا مار کو نسبت ترے گیسو کے چلن سے
ہے سایۂ گیسو میں صنم مار کی رفتار
موتی عوض نقش قدم گرتے ہیں ناسخؔ
ایسی ہے مری کلک گہر بار کی رفتار
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |