کروں ہوں رات دن پھیرے کئی پھیرے میاں صاحب
کروں ہوں رات دن پھیرے کئی پھیرے میاں صاحب
کبھی تو بھی نہ پایا تم کو ہم ڈیرے میاں صاحب
اٹھاویں کیوں نہ نکتوڑے کہ ہم چاکر ہیں الفت کے
وگرنہ تم سے عالم میں ہیں بہتیرے میاں صاحب
جہاں کے خوب صورت ہم بہت تاڑیں ہیں نظروں میں
تو سب کا سب طرح صاحب ہے اے میرے میاں صاحب
یہی ہوتی ہے عاشق پروری کی شرط ہے ظالم
کہ ہم مرتے ہیں تم جاتے ہو منہ پھیرے میاں صاحب
برا کرتے ہو جو گھر سے نکل جاتے ہو حاتمؔ کے
نشے میں مست اجیالے و اندھیرے میاں صاحب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |