کر چکے برباد دل کو فکر کیا انجام کی

کر چکے برباد دل کو فکر کیا انجام کی
by عزیز لکھنوی

کر چکے برباد دل کو فکر کیا انجام کی
اب ہمیں دے دو یہ مٹی ہے ہمارے کام کی

ڈوب دے دے بادۂ گل رنگ میں زاہد اگر
دیکھیے رنگینیاں پھر جامۂ احرام کی

عکس ابرو دیکھتے ہیں بادۂ سرجوش میں
عید ہے ساقی پرستوں میں ہلال جام کی

ابتدائے عشق ہے اور بجھ رہا ہے دل مرا
ہو چلی دھیمی ابھی سے لو چراغ شام کی

آنکھ میں آنسو ہیں ماتھے پر عرق ہے موت کا
لے خبر عمر رواں اپنے چھلکتے جام کی

ہو گئی بازیچۂ اطفال بے ذوق و شعور
شاعری جو تھی مرادف معنی الہام کی

پختگی سمجھے ہوئے ہیں جو تناسب کو فقط
چاہیے اصلاح ان کو اس خیال خام کی

ہے یہ نازک فن جو شایان تہی مغزی نہیں
دور مجلس میں ضرورت کیا ہے خالی جام کی

ٔہے عزیزؔ آئینۂ لفظی مراعات النظیر
حسن معنی جب نہیں پھر شاعری کس کام کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse