کسی بت کی ادا نے مار ڈالا
کسی بت کی ادا نے مار ڈالا
بہانے سے خدا نے مار ڈالا
جفا کی جان کو سب رو رہے ہیں
مجھے ان کی وفا نے مار ڈالا
جدائی میں نہ آنا تھا نہ آئی
مجھے ظالم قضا نے مار ڈالا
مصیبت اور لمبی زندگانی
بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا
انہیں آنکھوں سے جینا چاہتا ہوں
جن آنکھوں کی حیا نے مار ڈالا
ہمارا امتحاں اور کوئے دشمن
کسی نے بے ٹھکانے مار ڈالا
پڑا ہوں اس طرح اس در پہ مضطرؔ
کوئی دیکھے تو جانے مار ڈالا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |