کسی سے بس کہ امید کشود کار نہیں
کسی سے بس کہ امید کشود کار نہیں
مجھے اجل کے بھی آنے کا اعتبار نہیں
جواب نامہ کا قاصد مزار پر لایا
کہ جانتا تھا اسے تاب انتظار نہیں
یہ کہہ کے اٹھ گئی بالیں سے میری شمع سحر
تمام ہو گئی شب اور تجھے قرار نہیں
جو تو ہو پاس تو حور و قصور سب کچھ ہو
جو تو نہیں تو نہیں بلکہ زینہار نہیں
خزاں کے آنے سے پہلے ہی تھا مجھے معلوم
کہ رنگ و بوئے چمن کا کچھ اعتبار نہیں
غزل کہی ہے کہ موتی پروئے ہیں اے نظمؔ
وہ کون شعر ہے جو در شاہوار نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |