کسی کے حسن عالم تاب کی تنویر کے صدقے
کسی کے حسن عالم تاب کی تنویر کے صدقے
کسی بد بخت کی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
مروت کی ادا پر بند آنکھیں کر کے لٹ جانا
یہ نادانی سہی لیکن یہ نادانی نہیں جاتی
وہاں دل لے چلا ہے پھر وہی اک بات کہنے کو
کہی جاتی ہے جو اکثر مگر مانی نہیں جاتی
خداوندا پھر آخر کیا تمنا ہے مرے دل کی
وہ پہلو میں بھی ہیں لیکن پریشانی نہیں جاتی
کیا تھا میں نے شکوہ آپ نے آنکھیں جھکا لی تھیں
ہوئی مدت مگر اب تک پشیمانی نہیں جاتی
وہی ہے اپنی رندی اور وہی واعظ کی فہمائش
بری عادت کوئی بھی ہو بہ آسانی نہیں جاتی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |