کسی کے سنگ در سے اپنی میت لے کے اٹھیں گے

کسی کے سنگ در سے اپنی میت لے کے اٹھیں گے
by مضطر خیرآبادی

کسی کے سنگ در سے اپنی میت لے کے اٹھیں گے
یہی پتھر پئے تعویذ تربت لے کے اٹھیں گے

گئے وہ دن کہ ہم گرتے تھے اور ہمت اٹھاتی تھی
وہ دن آیا کہ اب ہم اپنی ہمت لے کے اٹھیں گے

اگر دل ہے تو تیرا درد الفت ساتھ جائے گا
کلیجا ہے تو تیرا داغ حسرت لے کے اٹھیں گے

یہ پیدا ہوتے ہی رونا صریحاً بدشگونی ہے
مصیبت میں رہیں گے اور مصیبت لے کے اٹھیں گے

خط قسمت مٹاتے ہو مگر اتنا سمجھ لینا
یہ حرف آرزو ہاتھوں کی رنگت لے کے اٹھیں گے

مجھے اپنی گلی میں دیکھ کر وہ ناز سے بولے
محبت سے دبے جاتے ہیں حسرت لے کے اٹھیں گے

ترے کوچے میں کیوں بیٹھے فقط اس واسطے بیٹھے
کہ جب اٹھیں گے اس دنیا سے جنت لے کے اٹھیں گے

ترا راز محبت لے کے آئے لے کے جائیں گے
امانت لے کے بیٹھے ہیں امانت لے کے اٹھیں گے

ہمیں اس نام جپنے کا مزا اس روز آئے گا
تمہارا نام جس دن زیر تربت لے کے اٹھیں گے

دم آخر ہم آنچل ان کا مضطرؔ کس طرح چھوڑیں
یہی تو ہے کفن جس کی بدولت لے کے اٹھیں گے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse