کس سے احوال کہوں اپنا میں اے یار کہ تو
کس سے احوال کہوں اپنا میں اے یار کہ تو
مل کے اغیار سے مجھ سے ہے بیزار کہ تو
نہ میری بات کو پوچھے ہے نہ دیکھے ہے ادھر
ایک دن یہ نہ کیا عاشق بیمار کہ تو
کس طرح سے ہے بتا حال دل غمیں کچھ تو
کیوں مئے غم سے ہے اس طرح سے سرشار کہ تو
روز با دیدہ تر خاک بسر پھرتا ہے
نہ رہا شہر میں اک کوچہ و بازار کہ تو
وہاں ہیں جا کے جتاتا ہے یہ مصیبت اپنی
آج تک کل ہیں دل کو تیرے زنہار کہ تو
سخت بیکل ہے نکل کوچۂ غم سے اب تو
اس قدر کب ہے اذیت کا سزاوار کہ تو
یوں ہی فریاد کناں نعرہ زنان خاک بسر ہے
اک شب آئیو میرے پس دیوار کہ تو
چاہ میں تیری ہی ڈوبا ہے کنوئیں میں غم کے
جوں زلیخا ہیں یوسف کا طلب گار کہ تو
میرا احسان ہے میرا عاشق صادق ہے صنم
جبکہ یہ بھی نہ ہو میں پڑھوں اشعار کہ تو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |