کس سے ہوں داد خواہ کوئی دادرس نہیں
کس سے ہوں داد خواہ کوئی دادرس نہیں
وہ کشتنی ہوں میں کہ کسی کو ترس نہیں
زاہد کسی وصال صنم کی ہوس نہیں
پتھر کا بت ہے تو کہ تجھے حس و مس نہیں
وہ ناتواں ہوں کہ مرے دل کو ہے یقیں
آندھی کی جھونکے چلتے ہیں باد نفس نہیں
جب تک کہ تم نہ آؤ گے رگڑوں گا ایڑیاں
میں بھی ہوں سخت جان جو تم کو ترس نہیں
ضبط فغاں سے عضو بدن گھل چلے تمام
میں کاروان ریگ رواں ہوں جرس نہیں
دنیا کی نعمتوں سے یہ سیری ہے روح کو
بوسہ بھی یار دے تو کہوں میں ہوس نہیں
کچھ تو ہماری رونے میں تخفیف ہو گئی
بارش جو اگلے سال تھی اب کی برس نہیں
پروانہ و چراغ پر آتا ہے مجھ کو رشک
کس طرح تم سے اڑ کے لپٹ جاؤں بس نہیں
اے شہسوار اس کا چمکنا دلیل ہے
آہوئے خاوری ہے یہ تیرا فرس نہیں
ہم مے کشوں کی بزم میں ہے بے تکلفی
کچھ دانہ ہائے سبحہ صفت پیش و پس نہیں
بیتابیاں یہی ہیں تو اک دن نجات ہے
صیاد یا تو میں ہی نہیں یا قفس نہیں
اپنے لیے ہے مرگ گلوں کی مفارقت
ہے گنبد مزار ہمارا قفس نہیں
اے بحرؔ اس مقام پر اٹکا ہے جا کے دل
پائے خیال کی بھی جہاں دسترس نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |