کس طرح ملیں کوئی بہانا نہیں ملتا
کس طرح ملیں کوئی بہانا نہیں ملتا
ہم جا نہیں سکتے انہیں آنا نہیں ملتا
پھرتے ہیں وہاں آپ بھٹکتی ہے یہاں روح
اب گور میں بھی ہم کو ٹھکانا نہیں ملتا
بدنام کیا ہے تن انور کی صفا نے
دل میں بھی اسے راز چھپانا نہیں ملتا
دولت نہیں کام آتی جو تقدیر بری ہو
قارون کو بھی اپنا خزانا نہیں ملتا
آنکھیں وہ دکھاتے ہیں نکل جائے اگر بات
بوسہ تو کہاں ہونٹ ہلانا نہیں ملتا
طاقت وہ کہاں جائیں تصور میں جو اے برقؔ
برسوں سے ہمیں ہوش میں آنا نہیں ملتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |