کس قدر دل ربا نما ہے دل
کس قدر دل ربا نما ہے دل
خانۂ غیر ہو گیا ہے دل
ہر گھڑی کیوں نہ زلزلے میں رہے
مشہد حسرت و وفا ہے دل
موت بھی سہل کچھ نہیں اپنی
کس لیے طاقت آزما ہے دل
مصلحت اس میں ہو نہ کوئی کاش
دشمن جان ہو گیا ہے دل
سب سے لگ چلنے کی ہوئی ہے کھو
کس قدر صرف آشنا ہے دل
شیخ صنعاں کا یاد ہے قصہ
سخت کافر بری بلا ہے دل
اپنی حالت میں مبتلا ہوں آپ
دل ربا جاں ہے جاں ربا ہے دل
بل بے واماندگی کی تیز روی
جیسے جانے پہ آ گیا ہے دل
کس جفا کار کی وفا ہے جاں
کس ستم کش کا مدعا ہے دل
تیری الفت کا نقد داغ جگر
میری حسرت کا خوں بہا ہے دل
کہیے کس سے لگا لیا لگا
اے قلقؔ کیوں کے لگ چلا ہے دل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |