کس قدر مجھ کو ناتوانی ہے

کس قدر مجھ کو ناتوانی ہے
by گویا فقیر محمد
303598کس قدر مجھ کو ناتوانی ہےگویا فقیر محمد

کس قدر مجھ کو ناتوانی ہے
بار سر سے بھی سرگرانی ہے

چشم تر سے جو خوں فشانی ہے
ناوک عشق کی نشانی ہے

سارے قرآن سے اس پری رو کو
یاد اک لفظ لن ترانی ہے

جب ہوا رتبۂ فنا فی اللہ
غم نہیں گر جہان فانی ہے

ہے ہر اک شعر یار کی تصویر
فکر اپنی خیال مانی ہے

کیوں نہ ہوں عاشق لب جاناں
چشمۂ آب زندگانی ہے

اس کی رفتار کے لکھے ہیں جو وصف
کیا مری طبع میں آتی ہے

ناصحا عاشقی میں رکھ معذور
کیا کروں عالم جوانی ہے

کس سے دوں اس صنم کو میں تشبیہ
کب خدائی میں اس کا ثانی ہے

نہ مری زخم پر رکھو مرہم
میرے قاتل کی یہ نشانی ہے

سر کٹائیں گے شمع ساں خاموش
گر یہی اپنی بے زبانی ہے

ہم نہیں شمع ہوں جو اشک فشاں
کار عشاق جاں فشانی ہے

منہ نے گھر میں مرے رکھا اس کو
یہ بھی تائید آسمانی ہے

دل بھی اس سے اٹھا نہیں سکتے
ناتوانی سی ناتوانی ہے

قد موزوں کے عشق میں گویاؔ
رات دن شغل شعر خوانی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.