کس منہ سے کروں میں تن عریاں کی شکایت
کس منہ سے کروں میں تن عریاں کی شکایت
داماں کی شکایت نہ گریباں کی شکایت
کیسا ہی کھٹکتا رہے دل میں مرے پیکاں
مجھ سے تو نہ ہوگی کبھی مہماں کی شکایت
اتنا بھی تغافل نہیں اچھا کہیں تم کو
کرنی نہ پڑے شورش پنہاں کی شکایت
اللہ رکھے مرے تصور کو سلامت
تجھ کو تو نہیں ہے شب ہجراں کی شکایت
ہوں لنگ مگر واقف آداب جنوں ہوں
میں کفر سمجھتا ہوں بیاباں کی شکایت
کہتی ہے تری چشم کی گردش مرے ہوتے
کوئی نہ کرے گردش دوراں کی شکایت
جاتے تو ہو کعبے کو خدا کے لئے مائلؔ
کرنا نہ کسی دشمن ایماں کی شکایت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |