کس نے سنایا اور سنایا تو کیا سنا
کس نے سنایا اور سنایا تو کیا سنا
سنتا ہوں آج تو نے مرا ماجرا سنا
ایسے سے دل کا حال کہیں بھی تو کیا کہیں
جو بے کہے کہے کہ چلو بس سنا سنا
وصل عدو کا حال سنانے سے فائدہ
اللہ رحم کیجئے بس بس سنا سنا
قاصد ترے سکوت سے دل بے قرار ہے
کیا اس جفا شعار نے تجھ سے کہا سنا
آخر حسنؔ وہ روٹھ گئے اٹھ کے چل دیے
کم بخت اور حال دل مبتلا سنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |