کس پہ قابو جو تجھی پہ نہیں قابو اپنا

کس پہ قابو جو تجھی پہ نہیں قابو اپنا
by شاد عظیم آبادی
317693کس پہ قابو جو تجھی پہ نہیں قابو اپناشاد عظیم آبادی

کس پہ قابو جو تجھی پہ نہیں قابو اپنا
کس سے امید ہمیں جب نہ ہوا تو اپنا

جام مے دیکھ کے جاتا رہا قابو اپنا
لڑکھڑاتا ہوں پکڑ لے کوئی بازو اپنا

نکہت گل بہت اتراتی ہوئی پھرتی ہے
وہ کہیں کھول بھی دیں طرۂ گیسو اپنا

اس نے پھر کر بھی نہ دیکھا کہ یہ ہے کون بلا
ہم کو تھا زعم کہ چل جائے گا جادو اپنا

جس کو سمجھے ہو وہی چیز نہیں مدت سے
ہم دکھا دیں گے کبھی چیر کے پہلو اپنا

پر پرواز نکلنے دے قفس میں صیاد
کام دے گا یہی ٹوٹا ہوا بازو اپنا

مل گئے خاک میں در پر ترے اتنا بیٹھے
اس ریاضت پہ بھی اب تک نہ ہوا تو اپنا

غم نہیں جام طلاکار اٹھا رکھ ساقی
کیا غرض ہم کو سلامت رہے چلو اپنا

چوکڑی بھول کے منہ تکتے ہیں مجھ وحشی کے
آکے اس پاؤں پہ سر رکھتے ہیں آہو اپنا

کون اے طول شب غم ترا جھگڑا رکھے
آج قصہ ہی کیے دیتے ہیں یکسو اپنا

نکہت خلد بریں پھیل گئی کوسوں تک
وہ نہا کر جو سکھانے لگے گیسو اپنا

للہ الحمد کدورت نہیں رہنے پاتی
منہ دھلا دیتا ہے ہر صبح کو آنسو اپنا

شادی و غم کے رہیں گے یہی رگڑے جھگڑے
قصہ جس وقت تلک ہوگا نہ یکسو اپنا

غم میں پروانۂ مرحوم کے تھمتے نہیں اشک
شمع اے شمع ذرا دیکھ تو منہ تو اپنا

بے ادب مصحف رخسار پہ جھک پڑتے ہیں
رکھئے شانوں پہ ذرا گھیر کے گیسو اپنا

سینۂ تنگ سے گھبرا کے گیا دل تو گیا
منہ دکھائے نہ مجھے اب یہ سیہ رو اپنا

پھنسنے والا تھا پھنسا آ کے تری زلفوں میں دل
بہ خدا اس میں نہیں جرم سر مو اپنا

شام سے جیب میں اک تلخ دوا رکھی ہے
آج قصہ ہی کیے دیتے ہیں یکسو اپنا

وہم و ادراک و خیالات و دل و خواہش دل
سب تو اپنے ہیں مگر کیوں نہیں قابو اپنا

شادؔ سمجھاتے ہیں کیوں غیر لیا کیا ان کا
چشم تر اپنی ہے جان اپنی ہے آنسو اپنا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.