کشش حسن کی یہ انجمن آرائی ہے
کشش حسن کی یہ انجمن آرائی ہے
ساری دنیا ترے کوچے میں سمٹ آئی ہے
درد نے کھوے ہوئے دل کی جگہ پائی ہے
اک بلا سر سے گئی ایک بلا آئی ہے
جاں نثاروں کو سہارا جو نہ جینے کا ملا
کوئے قاتل میں قضا کھینچ کے لے آئی ہے
میں چھپاتا ہوں غم عشق تو بنتا نہیں کام
اور کہتا ہوں تو گویا مری رسوائی ہے
جگر و دل میں ترازو نہ ہو کیوں ناوک ناز
اس کو دونوں سے برابر کی شناسائی ہے
دل یہ کہتا ہے وہاں جا کے سنبھل جاؤں گا
میں یہ کہتا ہوں کہ بد بخت کی موت آئی ہے
بن کے ناصح وہ یہ کہتے ہیں محبت نہ کرو
مجھ کو مرنے نہیں دیتے یہ مسیحائی ہے
سب جسے داغ دل و زخم جگر کہتے ہیں
وہ مرے ناخن غم کی چمن آرائی ہے
کیا ہے دنیا میں نمود اور نمائش کے سوا
زندگی ہم کو تماشے کے لیے لائی ہے
عشق رسوا کن عالم وہ ہے احسنؔ جس سے
نیک ناموں کی بھی بد نامی و رسوائی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |