کشش سے دل کی اس ابرو کماں کو ہم رکھا بہلا
کشش سے دل کی اس ابرو کماں کو ہم رکھا بہلا
جو کر قبضے میں دل سب کا پھرے تھا سب سے وہ گہلا
جو گزرا عرش سے یہ نہ فلک کرسی ہے اس آگے
کرے ہے لا مکاں کی سیر عاشق چھوڑ نو محلا
تھکا آخر کو مجنوں غم سے راہ عشق میں میرے
غبار خاطر و آنسو کی بارش دیکھ کر چہلا
گلابی لعل کی ہوئی ہر کلی مے نوش سن تجھ کو
چمن میں ہے کھڑی لے جام نیلم نرگس شہلا
رکھی ہے ہم نے بازی زور سے شمشیر کے دشمن
کیا چاہے تھا سر واسوخت ہو مجھ نقش سے دہلا
تمہارے حسن کے گلشن میں پیارے کچھ نہ چھوڑوں گا
رقیبوں کے سر اوپر چڑھ کے توڑوں گا یہ پھل پہلا
نہ تھا ناجیؔ کو لازم طعن کرنا ہر سخن گو پر
جواب اس شعر کا حاتمؔ نہیں کچھ کام تو کہلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |