کعبے کا شوق ہے نہ صنم خانہ چاہئے
کعبے کا شوق ہے نہ صنم خانہ چاہئے
جانانہ چاہئے در جانانہ چاہئے
ساغر کی آرزو ہے نہ پیمانہ چاہئے
بس اک نگاہ مرشد مے خانہ چاہئے
حاضر ہیں میرے جیب و گریباں کی دھجیاں
اب اور کیا تجھے دل دیوانہ چاہئے
عاشق نہ ہو تو حسن کا گھر بے چراغ ہے
لیلیٰ کو قیس شمع کو پروانہ چاہئے
پروردۂ کرم سے تو زیبا نہیں حجاب
مجھ خانہ زاد حسن سے پردا نہ چاہئے
شکوہ ہے کفر اہل محبت کے واسطے
ہر اک جفائے دوست پہ شکرانہ چاہئے
بادہ کشوں کو دیتے ہیں ساغر یہ پوچھ کر
کس کو زکوٰۃ نرگس مستانہ چاہئے
بیدمؔ نماز عشق یہی ہے خدا گواہ
ہر دم تصور رخ جانانہ چاہئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |