کلیجا منہ کو آتا ہے شب فرقت جب آتی ہے
کلیجا منہ کو آتا ہے شب فرقت جب آتی ہے
اکیلے منہ لپیٹے روتے روتے جان جاتی ہے
لب نازک کے بوسے لوں تو مسی منہ بناتی ہے
کف پا کو اگر چوموں تو مہندی رنگ لاتی ہے
دکھاتی ہے کبھی بھالا کبھی برچھی لگاتی ہے
نگاہ ناز جاناں ہم کو کیا کیا آزماتی ہے
وہ بکھرانے لگے زلفوں کو چہرے پر تو میں سمجھا
گھٹا میں چاند یا محمل میں لیلیٰ منہ چھپاتی ہے
کرے گی اپنے ہاتھوں آج اپنا خون مشاطہ
بہت رچ رچ کے تلووں میں ترے مہندی لگاتی ہے
نہ کوئی زور اس عیار پر اب تک چلا اپنا
یہاں دم ٹوٹتا ہے اور دم میں جان جاتی ہے
تڑپنا تلملانا لوٹنا سر پیٹنا رونا
شب فرقت اکیلی جان پر سو آفت آتی ہے
پچھاڑیں کھا رہا ہوں لوٹتا ہوں درد فرقت سے
اجل کے پاؤں ٹوٹیں کیوں نہیں اس وقت آتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |