کلیجہ منہ کو آتا ہے کریں تم سے بیاں کیونکر
کلیجہ منہ کو آتا ہے کریں تم سے بیاں کیونکر
نہ پوچھو ہم صفیرو ہم سے چھوٹا آشیاں کیونکر
ذرا دیکھیں بدل جاتا ہے دور آسماں کیونکر
کسی کے حال پر ہوتا ہے کوئی مہرباں کیونکر
ہمیں تو غم سے اتنی بھی نہیں فرصت کہ یہ سوچیں
محبت میں ہوا کرتا ہے کوئی شادماں کیونکر
کسی پر عمر بھر کی کس طرح مشق ستم تم نے
ذرا سوچو تو دل میں اور لو گے امتحاں کیونکر
چمن میں ایک مدت ہم نے مشق گل فشانی کی
قفس تک آتے آتے آ گئی طرز فغاں کیونکر
جو حالت دل کی ہے وہ رنگ رخ اڑ اڑ کے کہتا ہے
چھپائیں ہم اسے بھی صورت درد نہاں کیونکر
کلیجے کی طرح جس کو جگہ دی ہم نے سینے میں
وہی دل بن گیا ہے آج ان کا ہم زباں کیونکر
کسی دن آ کے آنکھوں سے ذرا تم دیکھ تو لیتے
کیا کرتا ہے کوئی ہجر میں آہ و فغاں کیونکر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |