کل نشے میں تھا وہ بت مسجد میں گر آ جاتا
کل نشے میں تھا وہ بت مسجد میں گر آ جاتا
ایماں سے کہو یارو پھر کس سے رہا جاتا
مردے کو جلا لیتے گرتے کو اٹھا لیتے
اک دم کو جو یاں آتے تو آپ کا کیا جاتا
یہ کہیے کہ دھیان اس کو آتا ہی نہیں ورنہ
محشر سے تو سو فتنے وہ دم میں اٹھا جاتا
محفل میں مجھے دیکھا تو ہنس کے لگے کہنے
آنے سے ہر اک کے ہے صحبت کا مزا جاتا
ایذائیں یہ پائی ہیں مقدور اگر ہوتا
میں رسم تعشق کو دنیا سے اٹھا جاتا
کیوں پاس مرے آ کر یوں بیٹھے ہو منہ پھیرے
کیا لب ترے مصری ہیں میں جن کو چبا جاتا
کیا جلوہ نما وہ مہ کوٹھے پہ ہوا آ کر
کچھ آج سویرے سے سورج ہے چھپا جاتا
یہ کاہشیں کیوں ہوتیں گھبرا کے اگر یہ دل
پہلو سے نکل جاتا آرام سا آ جاتا
اچھا ہوا محفل میں مجروحؔ نہ کچھ بولا
وہ حال اگر کہتا تو کس سے سنا جاتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |