Author:میر مہدی مجروح
میر مہدی مجروح (1833 - 1903) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
- اثر آہ کا گر دکھائیں گے ہم
- ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے
- یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں
- اس کے نبھنے کے کچھ نہیں اسباب
- مانگیں نہ ہم بہشت نہ ہو واں اگر شراب
- نیچی نظروں کے وار آنے لگے
- بس کہ اک جنس رائیگاں ہوں میں
- خانماں سوز ماسوا ہوں میں
- نہ کیوں تیر نظر گزرے جگر سے
- وہ کہاں جلوۂ جاں بخش بتان دہلی
- حرف تم اپنی نزاکت پہ نہ لانا ہرگز
- گریباں چاک ہیں گل بوستاں میں
- سر کو تن سے مرے جدا کیجے
- میرے دل میں تو ہر زماں ہو تم
- ایک سے ربط ایک سے ہے بگاڑ
- کل نشے میں تھا وہ بت مسجد میں گر آ جاتا
- اس کے جو جو کہ فوائد ہیں خود دیکھتے جاؤ
- نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ غل ہے آہ و زاری کا
رباعی
edit- زوروں پہ ہے روز ناتوانی میری
- رہبان کا قیس کا محبوب ہے تو
- میں خاک تھا آدمی بنایا تو نے
- جو نخل ہو خشک اس کا پھلنا کیا ہے
- جو ہے سو پست سب سے عالی تو ہے
- ہے ان کی نزاکتوں کا پانا مشکل کیا کیجے بیاں
- چلنے کا تو ہو گیا بہانہ تم کو
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |