کوئی ارمان مرے دل کا نکلنے نہ دیا
کوئی ارمان مرے دل کا نکلنے نہ دیا
شوخیوں نے تری فقرہ بھی تو چلنے نہ دیا
پے بہ پے تیر نظر آئے سنبھلنے نہ دیا
چاندنی چوک سے بسمل کو نکلنے نہ دیا
جب سسکنے کا نہیں حکم تڑپنا کیسا
اتنا ارمان بھی قاتل نے نکلنے نہ دیا
بزم ہستی میں ابھی آ کے تو ہم بیٹھے تھے
یوں اجل آئی کہ زانو بھی بدلنے نہ دیا
شب فرقت سے ہو حاصل مجھے کس طرح نجات
سخت جانی نے مرا دم بھی نکلنے نہ دیا
رحم کر پردۂ فانوس سے اے شمع نکل
اس قدر ظلم کہ پروانوں کو جلنے نہ دیا
یہ دبایا قد موزوں نے ترے طوبیٰ کو
باغ فردوس میں بھی پھولنے پھلنے نہ دیا
خوب نظارۂ قاتل رہا اکبرؔ تہ تیغ
ہاتھ رک رک گیا تقدیر نے چلنے نہ دیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |