کوئی ارماں تلاش دوست کا کیوں دل میں رہ جاتا

کوئی ارماں تلاش دوست کا کیوں دل میں رہ جاتا
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

کوئی ارماں تلاش دوست کا کیوں دل میں رہ جاتا
غبار اپنا اگر گرد رہ منزل میں رہ جاتا

نہیں معلوم کس مدت سے خنجر تشنۂ خوں تھا
کوئی خطرہ لہو کا کیوں تن بسمل میں رہ جاتا

صفائی کب تھی ممکن یہ غبار دل وہ کافر ہے
مرے دل سے نکلتا بھی تو اس کے دل میں رہ جاتا

جلا اور جل کے سوز رشک سے دل بجھ گیا فوراً
اگر ہوتا چراغ و شمع اس محفل میں رہ جاتا

تأسف ہے غبار قیس کی پرواز حسرت پر
لپٹ کر کاش تھوڑا پردۂ محمل میں رہ جاتا

نہ دیتا گر سہارا کچھ امید وصل کا طوفاں
شناور بحر غم کا حسرت ساحل میں رہ جاتا

اس آئینے میں گر وہ دیکھ لیتے روئے انور کو
تو کیوں اتنا بڑا دھبہ مہ کامل میں رہ جاتا

نہ ملتا مدعائے دل درم ملتا جو منعم سے
مگر اک داغ بن کر وہ کف سائل میں رہ جاتا

نشاں اس کا کہیں ملتا سراغ اس کا کہیں لگتا
تو اپنا پاؤں کیوں تھک کر رہ منزل میں رہ جاتا

نظرؔ ہم کو علاقہ شعر سے کیا پر یہ حسرت ہے
نہ رہتے ہم تو اپنا ذکر اس محفل میں رہ جاتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse