کوئی بات ایسی آج اے میری گل رخسار بن جائے

کوئی بات ایسی آج اے میری گل رخسار بن جائے (1900)
by حبیب موسوی
324741کوئی بات ایسی آج اے میری گل رخسار بن جائے1900حبیب موسوی

کوئی بات ایسی آج اے میری گل رخسار بن جائے
کہ بلبل باتوں باتوں میں دم گفتار بن جائے

عیاں ہو جذب شوق ایسا حسیں آئیں زیارت کو
مری تربت کا میلہ مصر کا بازار بن جائے

مرے ہنسنے پہ وہ کہتے ہیں ایسا بھی نہ ہو بے خود
کہ کوئی آدمی سے قہقہہ دیوار بن جائے

تعجب کچھ نہیں ہے گر وفور سوز فرقت سے
مرا ہر موئے تن منقار موسیقار بن جائے

ٹہلتے گر چلے آئیں وہ داغوں کے تماشے کو
ابھی سرو چراغاں میرا جسم زار بن جائے

برہمن شیخ کو کر دے نگاہ ناز اس بت کی
گلوئے زہد میں تار نظر زنار بن جائے

اگر گھر سے بقصد سیر نکلے وہ کماں ابرو
تو بہر طائر دل ہر مژہ سو فار بن جائے

تبسم کر تماشا دیکھ کے وحشت کا پھر ظالم
مرا چاک گریباں زخم دامن دار بن جائے

یوں ہی ہنس ہنس کے تم عاشق کا رونا دیکھتے جاؤ
کہ ہر تار نظر اک موتیوں کا ہار بن جائے

بڑھاؤ منزلت تیغ ادا کی تند خوئی سے
مناسب ہے جو یہ شمشیر جوہر دار بن جائے

اگر آئینۂ دل صاف ہو حسن توجہ سے
ہر اک آنکھوں کا پردہ پردۂ اسرار بن جائے

یہی ہے خوں بہا چل کر ذرا کہہ دو اشارے سے
حبیبؔ خستہ کا مرقد پس دیوار بن جائے


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.