کوئی صورت سے گر صفا ہو

کوئی صورت سے گر صفا ہو
by وزیر علی صبا لکھنؤی
303382کوئی صورت سے گر صفا ہووزیر علی صبا لکھنؤی

کوئی صورت سے گر صفا ہو
آئنۂ دل خدا‌ نما ہو

ماشاء اللہ چشم بد دور
کیا خوب جوان مہ لقا ہو

منصف ہوں شیخ و گبر دل میں
قصہ چک جائے فیصلہ ہو

دوزخ کو بھی مات کر دیا ہے
اے سوزش دل ترا برا ہو

مسند کیسی فقیر ہوں میں
تھوڑی سی جگہ ہو بوریا ہو

کہتے ہیں وہ میرے دیکھنے پر
دیکھو کوئی نہ دیکھتا ہو

معلوم ہیں واعظوں کی باتیں
اس سے کہیں جو نہ جانتا ہو

یارو سمجھاؤ اس صنم کو
کیسے تم بندۂ خدا ہو

گلچیں ممکن ہے پھول توڑے
بلبل نالہ بھی جانتا ہو

کس سے ملتا ہے دیکھ اے دل
غافل ایسا نہ ہو دغا ہو

سن لے کبھی مجھ فقیر کی بھی
اللہ کرے ترا بھلا ہو

یہ حال ہے نقد دل کو کھو کر
جیسے کوئی لٹا ہوا ہو

الٹی الٹی نہ کیوں ہوں باتیں
ٹیڑھی ٹیڑھی ہے خفا خفا ہو

بندہ باہر کبھی نہیں ہے
جب چاہے اجل کا سامنا ہو

اللہ کرے نامۂ عمل پر
تیرا نقشہ کھنچا ہوا ہو

اے یار کبھی تو کام آؤ
اتنی مدت کی آشنا ہو

ابرو سے چشم سے نگہ سے
آفت ہو قہر ہو بلا ہو

کب سے امید و بیم میں ہیں
جو کچھ ہونا ہو یا خدا ہو

کچھ رحم بھی ہے خدا خدا کر
بندے سے صبر تا کجا ہو

پڑھتے ہو صباؔ بتوں کا کلمہ
کہنے کو بندۂ خدا ہو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.