کوئی نہ دیکھا کہ واپس آیا خدا کے گھر ایک بار جا کر
کوئی نہ دیکھا کہ واپس آیا خدا کے گھر ایک بار جا کر
وہ دیر و کعبہ میں ہے مقید خدا خدا کر خدا خدا کر
سمجھ نہ تو اس کو بے نوائی یہ دو جہاں کی ہے بادشائی
کہ دولت عشق ہاتھ آئی متاع دنیا و دیں لٹا کر
جہاں کی کائنات کیا ہے امید عقبیٰ میں کیا دھرا ہے
بری ہیں جو اس سے وہ نہ دیکھیں ادھر ذرا آنکھ بھی اٹھا کر
کرم ترا طمع پر ہے مبنی ہے تیری خیرات اس نفس پر
کہ سود میں اشرفی ملے گی جو دے گا اک دام ہاتھ اٹھا کر
یہ دل لگی کیا ہے باد و باراں ہنسی ہے یہ یا ستم ظریفی
گلوں کو مٹی میں کیوں ملایا کھلا کھلا کر ہنسا ہنسا کر
نہ رہ سکے پیش مہر تاباں گل اور شبنم میں ربط رسمی
میں کٹ گیا کل جہاں سے کیفیؔ دل ایک دل دار سے لگا کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |