کوفت سے جان لب پہ آئی ہے

کوفت سے جان لب پہ آئی ہے
by میر تقی میر

کوفت سے جان لب پہ آئی ہے
ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے

لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے

آرزو اس بلند و بالا کی
کیا بلا میرے سر پہ لائی ہے

دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے

ہے تصنع کہ لعل ہیں وے لب
یعنی اک بات سی بنائی ہے

دل سے نزدیک اور اتنا دور
کس سے اس کو کچھ آشنائی ہے

بے ستوں کیا ہے کوہ کن کیسا
عشق کی زور آزمائی ہے

جس مرض میں کہ جان جاتی ہے
دلبروں ہی کی وہ جدائی ہے

یاں ہوئے خاک سے برابر ہم
واں وہی ناز و خود نمائی ہے

ایسا موتیٰ ہے زندۂ جاوید
رفتۂ یار تھا جب آئی ہے

مرگ مجنوں سے عقل گم ہے میرؔ
کیا دوانے نے موت پائی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse