کون اس باغ سے اے باد صبا جاتا ہے
کون اس باغ سے اے باد صبا جاتا ہے
رنگ رخسار سے پھولوں کے اڑا جاتا ہے
شعلہ شمع میں گرمی یہ کہاں سے آئی
اس کی گرمی سے تو فانوس جلا جاتا ہے
دل کے دھڑکوں کا یہ عالم ہے کہ بے منت دست
پرزے ہو ہو کے گریبان اڑا جاتا ہے
ربط پہلے جو ترے یاد کبھی کرتا ہوں
بیٹھے بیٹھے مجھے افسوس سا آ جاتا ہے
پوچھتا کوئی نہیں کب سے ترے کوچے میں
دل کسی کا ہے کہ پامال ہوا جاتا ہے
گئے وے دن کہ تمنا ہمیں اک اشک کی تھی
اب تو ان آنکھوں سے دریا سا بہا جاتا ہے
شام کے وقت تو کوٹھے پہ جو آتا ہے کبھی
دیکھ کر تجھ کو یہ خورشید چھپا جاتا ہے
بے ادب کے تئیں مطلق نہیں صحبت کا شعور
شانہ کتنا تری زلفوں سے لگا جاتا ہے
یوں قدم رکھ نہ زمیں پر تری رفتار سے آہ
دل کسی کا ہے کہ ماٹی میں ملا جاتا ہے
مصحفیؔ عشق کی وادی میں گزر ہے کس کا
بھولا بھٹکا کوئی ایدھر کو بھی آ جاتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |