کون سی بات تری ہم سے اٹھائی نہ گئی
کون سی بات تری ہم سے اٹھائی نہ گئی
پر جفا جو تری یہ نت کی لڑائی نہ گئی
نہ کہا تھا کہ تو قاتل ہو مرا میں مقتول
سر نوشت اپنی کسی ہی سے مٹائی نہ گئی
قصد ہر چند کیا سیکھنے کا بلبل نے
وضع نالے کی مری اس سے اڑائی نہ گئی
دل سوزاں کی جہاں دارؔ ترے تا بہ فلک
کون سی آہ تھی جو مثل ہوائی نہ گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |