کون سی وہ شمع تھی جس کا میں پروانہ ہوا
کون سی وہ شمع تھی جس کا میں پروانہ ہوا
اور پھر لو بھی لگی ایسی کہ دیوانہ ہوا
ساقیٔ سر مست سے جب تک کہ لینے کو بڑھوں
ہاتھ سے گرتے ہی چکنا چور پیمانہ ہوا
دل حریم ناز سے لے کر تو ہم نکلے مگر
ہو گیا عالم کچھ ایسا سب سے بیگانہ ہوا
خیر تھی الفت میں دل نے رنگ کچھ بدلا نہ تھا
اب تماشہ دیکھئے گا وہ بھی دیوانہ ہوا
ہم نے جانے کیا کہا لوگوں نے کیا سمجھا اسے
سرگزشت درد دل تھی جس کا افسانہ ہوا
فیض ساقی نے بدل دی صورت دل اور ہی
پہلے پیمانہ تھا پیمانہ سے مے خانہ ہوا
میرے لب تک آتے آتے کیوں چھلک جاتا ہے شوقؔ
جام رنگیں ساغر مل یا کہ پیمانہ ہوا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |