کون وقت اے وائے گزرا جی کو گھبراتے ہوئے

کون وقت اے وائے گزرا جی کو گھبراتے ہوئے
by محمد ابراہیم ذوق

کون وقت اے وائے گزرا جی کو گھبراتے ہوئے
موت آتی ہے اجل کو یاں تلک آتے ہوئے

آتش خورشید سے اٹھتا نہیں دیکھا دھواں
آ کھڑے ہو بام پر تم بال سکھلاتے ہوئے

چاک آتا ہے نظر پیراہن صبح بہار
کس شہید ناز کو دیکھا ہے کفناتے ہوئے

وہ نہ جاگے رات کو اور ضد سے بخت خفتہ کی
بج گیا آخر گجر زنجیر کھڑکاتے ہوئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse