کوچۂ جاناں میں جا نکلے جو غلماں بھول کر
کوچۂ جاناں میں جا نکلے جو غلماں بھول کر
یاد ہو اس کو نہ پھر گلزار رضواں بھول کر
سنگ دل بے مہر بے دیں بے وفا سمجھے نہ ہم
کر دئیے صدقے حسینوں پر دل و جاں بھول کر
بوسۂ ابرو کو لے کر منہ پہ کھائی ہم نے تیغ
کچھ کیا تم نے نہ پاس تیغ عریاں بھول کر
کر کے توبہ قول ہے اب حضرت دل کا یہی
اب کبھی لیں گے نہ نام عشق خوباں بھول کر
خوں رلایا عمر بھر شوکتؔ فراق یار نے
مرتے مرتے بھی نہ نکلا کوئی ارماں بھول کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |